کبھی کبھی


کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ میں بے گانۂ الم ہو کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہیں Ø+سین فسانوں میں Ù…Ø+Ùˆ ہو رہتا

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے Ø+لاوت Ú©Û’ گھونٹ Ù¾ÛŒ لیتا
Ø+یات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ترا غم، تری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے Ú©Ú†Ú¾ اس طرØ+ زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں

زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں
Ø+یات Ùˆ موت Ú©Û’ پرہول خارزاروں میں

نہ کوئی جادۂ منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
انہی خلاؤں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں مری ہم نفس مگر یونہی

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” Û”Û”